ماہِ مقدس میں ٹی وی پر جمی نورانی محفلوں کے عین بِیچ میں نہ جانے کہاں سے عریانی اور فحاشی کے بارے میں ایک دم شور اُٹھا تو یاد آیا کہ ہمارے ہاں صِرف نعت و منقبت اور ’دس دُنیا، ستر آخر‘ جیسے درس ہی نہیں دیے جاتے بلکہ یہاں فحاشی بھی بِکتی ہے۔
نہ صرف فحاشی بلکہ فحاشی کا بیان بھی بِکتا ہے اور فحاشی پر لعن طعن تو سب سے زیادہ بِکتا ہے اور جدید میڈیا کا کمال یہ ہے کہ فحاشی، فحاشی کا بیان اور اُس کی مذمت سب ایک چھوٹے سے خوبصورت پیکج میں دستیاب ہیں۔
لیکن یہ سارا الزام ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے کچھ مجاہدوں یا اُن کے نوٹ گنتے مالکوں پر لگانا درست نہیں۔
سنہ 1971 میں جب صرف ایک چینل ہوتا تھا اور وہ بھی دن میں صرف چند گھنٹے چلتا تھا، ان دنوں ایک سُپر ہٹ فلم چلی تھی’تہذیب‘ اُس میں بھی بڑھتی ہوئی فحاشی اور عُریانی کی وبا کے خلاف اعلان جہاد کیا گیا تھا۔ اُس کے مشہور گانے کے بول آج بھی مقبول ہیں۔
یہ عُریانی، یہ فیشن، یہ نظارہ ِلباس آدمیت پارہ پارہ
چونکہ عریانی کی مذمت مقصود ہے تو ناظرین کو پہلے تفصیل سے اِس گانے میں دکھایا جاتا ہے کہ عُریانی ہوتی کیا ہے اور گانا دیکھ کر آپ کو لگےگا کہ لباس آدمیت اصل میں ایک اداکارہ کی منی سکرٹ ہے کیمرا جِس کا پیچھا چھوڑ کے نہیں دیتا۔
آج کل کے ٹی وی ناصحین کا دِل اِتنا کمزور ہے کہ بچی کو کرکٹ کھیلتے دیکھ کر وضو ٹوٹ جاتا ہے، عورت کو آئس کریم کھاتا دیکھ لیں تو عظیم الشان اِسلامی تہذیب کا زوال نظر آنے لگتا ہے۔
ایسے میں میرے جیسا کم عقل اور کمزور ایمان والا مسلمان بھی کہتا ہے کہ اِس طرح کی عریانی کے سیلاب کے سامنے کھڑے ہونے سے بہتر ہے کہ یا تو نظریں نیچی کر لو، یا تو ریمورٹ کنٹرول اُٹھاؤ اور مدنی چینل یا نیشنل جیوگرافک دیکھ کر گزارا کرو۔
لیکن چونکہ فحاشی میں کمائی زیادہ ہے تو ہمارے میڈیا مجاہدین نہ صرف اِس مبینہ فحاشی کو دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں بلکہ اِس پر رننگ کمنٹری بھی کرتے ہیں۔
یہاں یہ غیر ضروری وضاحت ضروری ہے کہ جہاں بھی عریانی یا فحاشی کا لفظ ہو گا وہ صرف اور صرف عورت کے لیے ہو گا، وہ کسی گلا کاٹنے والے ، ریپ کرنے والے یا مزدور کا خون چوسنے والے کے لیے نہیں ہو گا۔
اِن ناصحین کا بیان کچھ اِس طرح چلتا ہے: ’وُہ دیکھیں، عریانی نیند سے اُٹھی، اُس نے مزید فحاشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیمپو سے بال دُھوئے، پھر تولیہ اُٹھایا، کیا کوئی شریف زادی کبھی تولیہ اُٹھائےگی؟ پھر عُریانی مسکرائی، اپنے فحش ہونٹوں سے، پھر اُس نے اپنے خاوند کے ساتھ تہذیب سے گرا ہوا مذاق کیا، پھر عریانی نے اپنی فحش زبان سے آم کا جوس چکھا۔ پھر عریانی اپنے گھر سے نکلی، اپنے فحش پیروں اور ٹانگوں پر چلتی ہوئی سڑک پر کھیلتے بچوں کو دیکھ کر مسکرائی، عریانی نے نامحرم مریض کی نبض چیک کی،‘ وغیرہ وغیرہ۔
کاش کہ عریانی کو کسی دِن غصہ آ جائے اور وُہ چپل اُتار کر اِن ناصحین سے کہے: ’یہ ٹی وی بند کرو اور اپنے گھروں میں عریانی ڈھونڈو، تمھارے دلوں اور دماغوں میں فحاشی کے داغ ہیں جو اچھے نہیں ہوتے کسی بھی دُھلائی پاؤڈر سے نہیں جاتے۔‘
ٹی وی کی آمدن اشتہاروں سے ہوتی ہے اور باقی دُنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی خوبصورت عورتوں کو زیادہ تر اشتہاروں میں کچھ نہ کچھ بیچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ شیونگ بلیڈ سے لے کر اِنجن آئل تک کے اشتہار میں آپ کو ایکٹر یا ماڈل ملے گی۔
حالانکہ میں نے اِن کو کبھی شکایت کرتے نہیں سُنا، لیکن یہ ظاہر ہے ایک منفی رجحان ہے جس پر بات ہونی چاہیے لیکن جِس انداز سے ہمارے میڈیا کے یہ مجاہد کانوں کو ہاتھ لگاتے اور تھو تھو کرتے ہیں تو شاید یا تو انھوں نے اپنے وعظ کے دوران چلنے والے اشتہار کبھی نہیں دیکھے یا اُن کا خیال ہے اُن کی تنخواہ اِن اشتہاروں سے نہیں آتی۔
اُن کے چمک دمک کُرتے، اُن کی کاریں اُن کے افطار پر سجی درجن ڈشیں، اُن کی پاکباز بچیوں کی سکولوں کی فیس کہاں سے آتی ہے؟ قطرینہ کیف کی ٹانگوں سے، کرینہ کپور کے بالوں سے، مائرہ خان کی مسکراہٹ سے۔
یہ ساری کی ساری عریانی اور فحاشی مل کر اِن میڈیا مجاہدین کا گھر چلاتی ہیں۔ یا شاید اُن کے مالکان اُن کو بتاتے ہوں کہ آپ کے لیے ہم نے رزق حلال کا علیحدہ بندوبست کیا ہے۔
ہمیں بچپن میں درسی کتابوں میں پڑھایا جاتا تھا کہ مومن مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اپنے ذاتی خرچ کے لیے ٹوپیاں سیتے تھے اور قرآن کی خطاطی کرتے تھے۔ میرا نہیں خیال کہ آج کے میڈیا مالکان راتوں کو جاگ کر اپنے اِن مجاہدین کے لیے ٹوپیاں سیتے ہوں گے تا کہ اُنھیں عریانی اور فحاشی کی کمائی میں سے تنخواہ نہ دینی پڑے اوراگر ٹوپیاں سی بھی لیں تو اُنھیں بیچنے کے لیے پھر تھوڑی بہت عریانی کا سہارا تو لینا پڑے گا۔
عریانی اور فحاشی کو بریکنگ نیوز میں بدلنے کی کوشش میں نے ایک نیوز چینل پر عین تراویح کے دوران دیکھی۔
شیخوپورہ کے ایک نواحی گاؤں سے چیختی چلاتی خبر آئی تراویح کے دوران مُجرا ہو رہا ہے، ساتھ ایک تصویر جس میں چند بنی سجی خواتین ایک سٹیج پر کھڑی تھیں سامنے چند بدبخت کرسیوں پر بیٹھے تھے۔
دو نوجوان ٹی وی اینکروں نے تراویح کے دوران مجرا، شرمناک حرکت، مقدس مہینے کی توہین کے نعرے لگا لگا کر آسمان سر پر اُٹھایا، پھر ایک مقامی تھانیدار کو فون پر لیا اور اُس پر چیخنے لگے۔
’یہ مقدس مہینے میں تراویح کے دوران کیا ہو رہا ہے؟‘ تھانیدار تھوڑا دھیمے مزاج کا تھا: ’کہنے لگا کچھ نہیں جی میلہ ہو رہا ہے ایک بزرگ کا، ہر سال ہوتا ہے۔‘
ایک اینکر پھر چیخا: ’عین تراویح کے دوران مجرا ہو رہا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کچھ نہیں ہو رہا ہے؟‘
’جی، لوگ تراویح پڑھ رہے ہیں کِسی نے شکایت نہیں کی۔ اور میلہ ہو رہا ہے میلے میں تو لوگ ایسے شُغل کر لیتے ہیں میرے پاس تو کوئی شکایت نہیں آئی۔‘
اینکر پھر چینخے: ’ہم آپ کو بتا رہے ہیں، تصویریں دکھا رہے ہیں تراویح کے دوران مجرے کی۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ کوئی شکایت نہیں۔‘
تھانیدار صاحب نے فرمایا: ’دیکھیں جی، میں بھی اِس ملک میں رہتا ہوں آپ بھی، یہاں گاؤں میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے لیکن آپ کہتے ہیں تو میں جا کے دیکھتا ہوں۔‘
یہ کہہ کر تھانیدار نے فون بند کر دیا۔
Post a Comment